پاکستان کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار رہا ہے لیکن ہر سال رمضان المبارک کے دوران ان واقعات میں کسی قدر کمی دیکھی جاتی ہیں تاہم رواں برس ماہ رمضان میں گزشتہ کئی برسوں کے مقابلے میں دہشتگردی کے ریکارڈ واقعات رونما ہوئے ہیں۔
جرمن ویب سائیٹ ڈی ڈبلیو کے مطابق پاکستانی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 30 مارچ ختم ہونے والے رمضان المبارک کے دوران ملک میں کم از کم 84 دہشت گرد حملے ہوئے۔ گزشتہ سال رمضان کے دوران چھبیس حملے ہوئے تھے۔
خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں جب کہ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بڑے پیمانے پر حملے جاری رہے۔ ان دونوں عناصر کی وجہ سے ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
ایک اور تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہ صیام کے پہلے تین ہفتوں میں 61 حملے ریکارڈ کیے گئے جب کہ گزشتہ برس پورے ماہ صیام میں 60 حملے ہوئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں دو مارچ سے 20 مارچ تک کے درمیان رونما ہونے والے خونریز واقعات میں 56 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ جو گزشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کے مطابق مختلف دہشتگرد گروپوں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے۔ بلوچ دھڑے آپس میں ہاتھ ملا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا مٰں انضمام شدہ قبائلی علاقوں میں حافظ گل بہادر کا دھڑا ٹی ٹی پی سے زیادہ مہلک ہے۔
عبداللہ خان کے مطابق عوام کے اعتماد کو بحال کرنا سب سے اہم ہے۔ عوام ہی دفاع کی پہلی لائن ہوتے ہیں۔