اہم ترین

ماں کی سانسوں سے داخل ہونے والی فضائی آلودگی بچے کی دماغی نگہداشت پر اثر ڈالتی ہے! تحقیق

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جہاں عام صحت کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے، وہیں اب سائنسدانوں نے انتباہ دیا ہے کہ اس کے اثرات رحمِ مادر میں پلنے والے بچوں کے دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔

اسپین میں کی گئی ایک نئی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر حاملہ خواتین دورانِ حمل آلودہ ہوا میں موجود باریک ذرات ( پی ایم 2.5) کے زیادہ رابطے میں رہیں تو ان کے بچوں کے دماغی نشوونما کا عمل سست ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق ہسپتال ڈیل مار، بارسلونا انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اور سینٹر فار بایومیڈیکل نیٹ ورک ریسرچ آن ریئر ڈیزیز کے ماہرین نے مشترکہ طور پر انجام دی۔ ماہرین کے مطابق پی ایم 2.5 کے یہ ذرات انسانی بال سے تقریباً تیس گنا چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں زہریلے کیمیکل، دھاتیں اور آلودگی پھیلانے والے مادے شامل ہوتے ہیں جو فضا میں گاڑیوں، کارخانوں اور جلنے والے ایندھن سے خارج ہوتے ہیں۔

تحقیق میں 132 نوزائیدہ بچوں کو شامل کیا گیا جن کی ماؤں کے اردگرد فضائی آلودگی کی سطح کو حمل کے دوران مانیٹر کیا گیا۔ بچوں کی ایم آر آئی اسکین پیدائش کے پہلے مہینے میں کی گئی تاکہ دماغی نشوونما کے ایک اہم حیاتیاتی عمل مایلینیشن کا جائزہ لیا جا سکے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ بچے جن کی مائیں دورانِ حمل زیادہ آلودہ ماحول میں رہیں، ان کے دماغ میں مایلینیشن کی رفتار نمایاں طور پر کم پائی گئی۔ یہ عمل دماغ میں اعصابی سگنلز کی رفتار اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شہری آلودگی صرف سانس یا دل کی بیماریوں تک محدود نہیں بلکہ یہ آنے والی نسلوں کی دماغی صحت اور سیکھنے کی صلاحیتوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔

تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے حاملہ خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آلودگی سے بچاؤ کے اقدامات اختیار کریں، جیسے کہ صاف ہوا والے مقامات پر وقت گزارنا، فضا میں آلودگی کے زیادہ اوقات میں باہر نکلنے سے گریز کرنا اور صحت مند غذا کا استعمال بڑھانا۔

یہ تحقیق ماحولیات سے متعلق معروف سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ دنیا بھر میں ماں اور بچے کی صحت کے لیے نئی سمت متعین کرنے والی تحقیق ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان