کیا آپ رات گئے تک سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں؟ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ رات کے وقت کی یہ عادت آپ کی نیند اور ذہنی صحت کے لیے خاموش قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق، جو لوگ رات کو دیر تک پوسٹ کرتے ہیں، ان میں ڈپریشن اور بے چینی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے اثرات پر ہونے والی سابقہ تحقیقات زیادہ تر اس کے استعمال کی کثرت پر مرکوز رہی ہیں۔ لیکن، یونیورسٹی آف برسٹل کے ماہرین کی قیادت میں ہونے والے ایک حالیہ مطالعے نے ایک اہم سوال اٹھایا: کیا استعمال کا وقت بھی ہماری ذہنی صحت میں کردار ادا کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے محققین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ (سابقہ ٹوئٹر) پر لوگوں کی رات کے وقت کی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا۔
تحقیق میں 310 افراد کے جنوری 2008 سے فروری 2023 کے دوران کیے گئے 18,288 ٹویٹس (بشمول ری ٹویٹس) کا جائزہ لیا گیا اور ان کا موازنہ ان کی ذہنی صحت کے سوالناموں سے کیا گیا۔
نتائج سے پتہ چلا کہ وہ صارفین جو اوسطاً رات 11 بجے سے صبح 5 بجے کے درمیان ٹویٹ کرتے تھے، ان کی ذہنی صحت دن کے وقت پوسٹ کرنے والوں کے مقابلے میں “نمایاں طور پر کمزور” پائی گئی۔
مطالعہ کے مطابق، رات کو ٹویٹ کرنے کی عادت ذہنی صحت کے مسائل میں تقریباً 2 فیصد زیادہ خلل پیدا کرتی ہے۔ رات کے وقت ٹویٹ کرنے کا تعلق ڈپریشن اور بے چینی سے بھی دیکھا گیا، حالانکہ یہ تعلق نسبتاً کمزور تھا۔
محققین اس عمل کی وجوہات کو جسمانی اور نفسیاتی عوامل سے جوڑتے ہیں
نیند میں خلل: رات گئے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے لوگ بیدار رہتے ہیں اور یہ نیند میں تاخیر کا سبب بنتا ہے۔
ہارمون کا مسئلہ: موبائل فون اور دیگر ڈیوائسز کی نیلی روشنی نیند لانے والے ہارمون میلاٹونن کی پیداوار کو روک دیتی ہے۔
تناؤ: رات کو پوسٹ یا میسج کرنے سے غیر ضروری ذہنی تناؤ (اسٹریس) پیدا ہو سکتا ہے۔
سائنٹیفک رپورٹس نامی جریدے میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ تمام عوامل مل کر نیند آنے میں تاخیر پیدا کر سکتے ہیں اور نیند کے معیار و دورانیے کو کم کر سکتے ہیں، جبکہ بہتر نیند کا تعلق ہمیشہ بہتر ذہنی صحت سے ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف برسٹل کے مرکزی مصنف، ڈینیئل جوائن سن کے مطابق سوشل میڈیا کا اثر اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ صارف کس قسم کا رویہ اپناتا ہے اور کیسا تجربہ حاصل کرتا ہے۔ ہمارا مقالہ ایک مخصوص رویے کے ممکنہ نقصان کو اجاگر کرتا ہے: رات کے وقت مواد پوسٹ کرنا۔
جوائن سن نے امید ظاہر کی کہ اس طرح کی تحقیق نقصان دہ سوشل میڈیا استعمال کو روکنے اور فائدہ مند رویوں کو فروغ دینے کے لیے نئے اقدامات اور قوانین بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔