پاکستان میں کیلے کے چھلکے سے ماحول دوست سینٹری پیڈز بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں ہر روز پلاسٹک کے بنے 8 ہزار ٹن سینٹری پیدز استعمال ہوتے ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان ذہنی اعتبار سے ایک زرخیز ملک ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو صحیح سمت اور مناسب رہنمائی مل جائے تو وہ ہر میدان میں اپنے لوہا منوا سکتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ نوجوانوں کی جانب سے بنائی گئی کمپنی شی گارڈ نے بھی اپنے اچھوتے آئیڈیاز سے دھوم مچارکھی ہے۔
شی گارڈ نے اپنے قیام کے صرف ایک سال بعد ہی 2023 میں کلائی میٹ لانچ پیڈ۔ ایشیاء پیسیفک فورم پر چھ ممالک کی 172 ٹیموں کو ہرا کر کلین ٹیکنالوجی میں پہلا انعام جیتا ہے۔
اس اسٹارٹ اپ کا عزم ہے کہ پاکستان کی ہر عورت کو ماحول دوست ، کم قیمت اور قابل بھروسہ سینٹری پیڈز فرعاہم کئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے کمپنی نے ایسے پیڈز تیار کئے ہیں جو کیلے کے چھلکے سے تیار کئے جاتے ہیں اور مکمل طور پر ماحول دوست ہیں۔
کمپنی کی نمائندہ مہرین رضا نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو دیئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں ہر روز 71 ہزار ٹن سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے، جس کا 11 فیصد خواتین کے لئے تیار کردہ پلاسٹک کے سینٹری پیڈز ہوتے ہیں۔ یہ کچرا بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہا ہے۔
مہرین رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر ماہ 67 لاکھ خواتین کو ماہواری کے لئے پیڈز کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے آدھی سے بھی کم یعنی 23 لاکھ خواتین ہی سینٹری پیڈز استعمال کرسکتی ہیں۔ اس طرح پاکستان میں 34 فیصد خواتین ہی سینٹری پیڈز استعمال کرنے کی سکت رکھتی ہیں۔ پلاسٹک کے بنے یہ پیڈز استعمال کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلے کی پیداوار میں خود کفیل ہے اور کیلا ہر سیزن میں استعمال کیا جانے والا ایک اہم پھل ہے۔ ملک میں تقریباً 35 ہزار ٹن کیلے کے چھلکے پھینک دیے جاتے ہیں۔ ان چھلکوں کو ری سائیکل کر کے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پیڈز تیار کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح ناصرف ماحول دوست پیڈز تیار کئے جاسکتے ہیں بلکہ خواتین کو نسبتاً کم قیمت پیڈز بھی میسر آسکتے ہیں۔