اہم ترین

گھیبلی گیم یا سب سے بڑا فراڈ؟ اے آئی آپ کا چہرہ بھی چوری کررہا ہے

آج کل ہر جگہ جی پی ٹی 4 او کی مدد سے گھیبلی کی دھوم ہے۔ یہ جدید ترین ٹول صارفین کی تصاویر کو اینیمیشن طرز کے پورٹریٹ میں تبدیل کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ فیس بک ہو ، انسٹاگرام ہو یا انسٹاگرام ۔۔ ہرسوشل میڈیا پلیٹ فارم گھیبلی طرز کی تصاویر سے بھر گیا ہے۔ لیکن کیا یہ لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ نہ صرف اے آئی کمپنیوں کے ساتھ اپنا فوٹو ڈیٹا شیئر کر رہے ہیں بلکہ نادانستہ طور پر اپنے چہرے کی شناخت بھی ان کے حوالے کر رہے ہیں ؟

یہ صرف گھیبلی کی وجہ سے نہیں ہے کہ ہم اپنے چہرے کی شناخت اے آئی کمپنیوں کے حوالے کر رہے ہیں ۔ درحقیقت ہم اپنی تصاویر ہر روز اے آئی کمپنیوں کو دیتے ہیں ۔ چاہے وہ فون کو ان لاک کرنے کے لیے ہو ، سوشل میڈیا پر ٹیگ کرنے کے لیے ہو یا کسی سروس کا استعمال کرنے کے لیے ہو ۔

اس بات کو سمجھیں کہ جب ہم سوشل میڈیا پر تصاویر ڈالتے ہیں یا کیمرے کو ایپس تک رسائی دیتے ہیں تو ہم اکثر اس کے خطرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر اے آئی کمپنیاں ہمارے چہروں کو مختلف زاویوں سے اسکین اور اپنے ڈیٹا بینک ذخیرہ کرتی ہیں ۔ یہ ڈیٹا پاس ورڈز یا کریڈٹ کارڈ نمبروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ آپ انہیں تبدیل کر سکتے ہیں ، لیکن اگر آپ کا چہرہ چوری ہو گیا ہے تو آپ اسے تبدیل نہیں کر سکتے ۔

ہم نے ماضی میں ایسے بہت سے واقعات کو نظر انداز کیا جو ہمیں خبردار کر رہے تھے کہ اس طرح کے خطرے سے بچنا چاہیے ۔ کلیئر ویو اے آئی تنازعہ ایسا ہی ایک واقعہ تھا ۔ کلیئر ویو اے آئی پر سوشل میڈیا ، نیوز سائٹس اور عوامی ریکارڈ سے بغیر اجازت کے 3 ارب تصاویر چوری کرنے ، ڈیٹا بیس بنانے اور اسے پولیس اور نجی کمپنیوں کو فروخت کرنے کا الزام تھا ۔

اس کے علاوہ مئی 2024 میں آسٹریلوی کمپنی آؤٹ باکس کا ڈیٹا لیک ہوا تھا جس میں 10 لاکھ افراد کے چہرے کے اسکین ، ڈرائیونگ لائسنس اور پتے چوری ہوئے تھے ۔ متاثرین نے غلط شناخت ، ہراساں کرنے اور شناخت کی چوری کی شکایت کی ۔ یہاں تک کہ دکانوں میں چوری کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والے ایف آر ٹی سسٹم بھی ہیکرز کے ہدف پر ہیں ۔ ایک بار چوری ہونے کے بعد ، ڈیٹا کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے مصنوعی شناخت کی دھوکہ دہی یا ڈیپ فیکس جیسے گھوٹالے ہوتے ہیں ۔

اسٹیٹسٹا کی رپورٹ کے مطابق فیسیل ریکگنیشن ٹیکنالوجی (ایف آر ٹی) کی مارکیٹ 2025 میں 5.73 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے اور 2031 تک یہ 16.79 فیصد کی سی اے جی آر پر 14.55 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی ۔

میٹا اور گوگل جیسی کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے اے آئی ماڈلز کو صارفین کی تصاویر پر تربیت دیتی ہیں ، لیکن وہ یہ معلومات شیئر نہیں کرتی ہیں ۔ پم آئیز جیسی سائٹس کسی کی بھی تصویر کو آن لائن تلاش کرنے کی اجازت دیتی ہیں ، جس سے خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔

اگر آپ اس خطرے سے بچنا چاہتے ہیں تو پہلے اس گھیبلی-گھیبلی کو روکیں ۔ اس کے علاوہ ، سوشل میڈیا پر ہائی ریزولوشن والی تصاویر اپ لوڈ کرنے سے گریز کریں ۔ فیس ان لاک کے بجائے پن یا پاس ورڈ استعمال کریں ۔

اس کے علاوہ ، حکومت اور کمپنیوں پر یہ بتانے کے لیے دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ آپ کا بائیو میٹرک ڈیٹا کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے ۔ تاہم ، یہ صرف ایک عارضی حل ہوگا ۔ اصل تبدیلی تب ہی آئے گی جب حکومتیں چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کے غیر قانونی استعمال کو روکیں گی اور اے آئی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین بنائیں گی ۔

پاکستان