مصٓنوعی ذہانت کے سب سے بڑے ماڈیول چیٹ جی پی ٹی کو ہالی ووڈ شارلٹ جوہانسن کی آواز کی نقل مہنگی پڑ گئی۔
فرانسیسی خبر ایجنسی فرانس 24 کے مطابق ہالی ووڈ اداکاری شارلٹ جوہانسن نے دو روز قبل کہا تھا کہ چیٹ جی پی ٹی کے سی ای او الٹ مین نے ستمبر میں انہیں ایک مصنوعی آواز کے لیے اوپن اے آئی کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ اس سے لوگوں کو اے آئی کے ساتھ منسلک ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن انہوں نے پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔
شارلٹ جوہانسن نے مزید کہا کہ سیم آلٹ مین نے اس سلسلے میں سائنس فکشن فلم “ہر” میں جوہانسن کی آواز والے کردار کی طرف اشارہ کیا تھا – جس میں دکھایا گیا ہے کہ ا یک شخص کو اے آئی چیٹ بوٹ سے محبت کرنے لگتا ہے۔
شارلٹ یہ میرے لئے حیران کن، اشتعال انگیز اور ناقابل یقین تھا کہ سیم آلٹمین ایسی آواز متعارف کرائیں گے جو میری آواز سے اس حد درجہ مماثلت رکھتی ہے کہ میرے قریبی دوست اور نیوز ایجنسیاں بھی فرق نہیں کرسکتے۔
ہالی ووڈ اداکارہ کے بیان پر اوپن اے آئی نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے لئے اپنائی گئی آوازوں کو جان بوجھ کر کسی مشہور شخصیت کی آواز کی نقل نہیں ہونا چاہیے۔ “اسکائی” کی آواز دوسری اداکارہ کی آواز پر مبنی ہے اور اس کا مقصد جوہانسن کی طرح آواز کا تاثر دینا قطعی نہیں تھا۔
اپنی ایکس پوسٹ میں اوپن اے آئی نے مزید لکھا کہ ہم سے چیٹ جی پی ٹی میں آوازوں کے انتخاب کے بارے میں سوال پوچھے جارہے ہیں۔۔ خاص طور پر اسکائی کی آواز کے حوالے سے یہ سوال زیادہ شدید ہیں۔
کمپنی نے وضاحت کی کہ اس نے پیشہ ور فنکاروں کے ساتھ مصنوعی آوازوں پر کام کیا جن کے نام بریز، کوو، ایمبر، جونیپر اور اسکائی رکھےگئے ۔ لیکن گزشتہ ہفتے جب اوپن اے آئی نے نیا موڈیول جی پی ٹی 4 او جاری کیا تو اسکائی توجہ کا مرکز بن گیا
اوپن اے آئی پرسرمایہ کاری کرنے والی سب سے بڑی کمپنی مائیکرو سافٹ کے نائب صدر یوسف مہدی کا کہنا ہے کہ اے آئی کوئی مرد یا عورت نہیں بلکہ ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ یہ سانس نہیں لے سکا ۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ اے آئی اے۔