نیوزی لینڈ حکومت نے غیر ملکی طلبا کو راغب کرنے کے لیے بنیادی قوانین میں تبدیلی کی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ایسے ترامیم بھی ہوئی ہیں جو پاکستانی طلبا کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔
نیوزی لینڈ میں اب اگر کوئی پاکستانی دوران تعلیم کوئی کورس یا یونیورسٹی بدلنا چاہتا ہے تو اسے ویزا ویریشن کے بجائے نیا اسٹوڈنٹ ویزا لینا ہوگا ۔ اس کی وجہ سے ویزا کے اجرا کا عمل طویل اور مہنگا ہو سکتا ہے، ساتھ ہی ویزا درخواست مسترد ہونے کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
ایسے طلبا جو مخصوص کورسز یا اسکول میں زیر تعلیم رہتےہوئےکام کے خواہشمند ہیں ۔ انہیں ایسا کرنے کے لئے والدین اور اساتذہ سے لازمی اجازت لینی ہوگی۔ اس قانون سے کم عمر کے طلبا کے لیے یہ عمل اور بھی پیچیدہ ہو گیا ہے۔
نئی قوانین کے تحت ایسر غیر ملکی طلبا جو نئی 25 گھنٹے ہفتہ وار کام کی حد سے فائدہ اٹھانے چاہتے ہیں، انہیں بھی اپنا ویزا دوبارہ اپڈیٹ کرانا پڑے گا۔ یعنی کہ کام کے اوقات، کاغذی کارروائی اور اخراجات تینوں میں اضافہ ہوگا۔
نیوزی لینڈ کے قوانین میں تبدیلی سے جہاں وہاں مقیم پاکستانی نوجوانوں کو مالی طور پر مستحکم ہونے میں مدد ملے گی۔ اس سے ویزا کا عمل مزید پیچیدہ اور مہنگا بھی ہوگا۔