بنگلا دیش میں انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے78 سالہ سابق وزیراعظم حسینہ واجدکو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔
بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں قائم انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی نے سابق وزیراعظم کے خلاف ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا، اس موقع پر سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔
عدالت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر حسینہ کو عمر قید اور بغاوت کے دوران کئی افراد کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔
موت کی سزا سنائے جانے کے بعد عدالت کے اندر تالیاں اور خوشی کے نعرے سنائی دیے، یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
تاہم حسینہ کے بیٹے اور مشیر سجیب واجد نے فیصلے سے ایک دن قبل رائٹرز کو بتایا تھا کہ جب تک ملک میں ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت نہ آ جائے، جس میں عوامی لیگ کی شرکت ہو، وہ اپیل نہیں کریں گے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’الزام نمبر ایک کے مطابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے لوگوں کو اکسانے والا حکم دے کر اور ضروری اقدامات نہ کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔
عدالت نے مزید کہا کہ الزام نمبر 2 کے مطابق شیخ حسینہ نے ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دے کر انسانیت کے خلاف ایک اور جرم کا ارتکاب کیا۔
جج غلام مرتضیٰ ماجد مجمدار نے ڈھاکا کی بھری ہوئی عدالت میں فیصلہ پڑھ کر سنایا کہ حسینہ واجد 3 الزامات میں مجرم پائی گئیں، جن میں اکسانا، قتل کا حکم دینا، اور مظالم کو روکنے میں غفلت شامل ہیں۔
جج نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں صرف ایک سزا دی جائے گی، اور وہ ہے موت کی سزا۔
خصوصی عدالت نے سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنادی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔










