ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دورانِ حمل ماں کے تناؤ کی سطح اور بچوں میں دانت جلد نکلنے کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔
نیویارک کی یونیورسٹی آف روچسٹر کے محققین نے معلوم کیا ہے کہ جن ماؤں میں حمل کے دوران کارٹیسول ہارمون کی مقدار زیادہ پائی گئی، ان کے بچوں کے دانت عام بچوں کے مقابلے میں کئی ماہ پہلے نکلنے لگے۔
فرنٹیئرز اِن اورل ہیلتھ میں شائع تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ماں کا تناؤ بچوں میں حیاتیاتی نشو نما کو تیز کر سکتا ہے۔
تحقیق کی سربراہ اور یونیورسٹی آف روچسٹر کی اسکول آف نرسنگ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر یِنگ مَینگ کے مطابق دورانِ حمل خاص طور پر آخری مہینوں میں ماں میں کارٹیسول کی بلند سطح بچوں میں دانتوں کے وقت سے پہلے اُبھرنے سے منسلک ہے۔
محققین نے امریکا کی 142 کم مراعات یافتہ خواتین کا مطالعہ کیا۔ حمل کے آخری مرحلے میں ان خواتین کے لعاب کے نمونے لیے گئے تاکہ کارٹیسول اور دیگر ہارمونز کی سطح معلوم کی جا سکے۔
بعد ازاں ان کے بچوں کے دانتوں کا معائنہ پیدائش سے 24 ماہ تک مختلف اوقات میں کیا گیا۔ نتائج کے مطابق 6 چھ ماہ کی عمر تک وہ بچے جن کی ماؤں میں کارٹیسول کی سطح سب سے زیادہ تھی، ان کے منہ میں اوسطاً چار زیادہ دانت نکل آئے تھے، مقابلتاً ان بچوں کے جن کی ماؤں میں کارٹیسول کم تھا۔
محققین کا ماننا ہے کہ کارٹیسول بچے کی قبل از پیدائش نشوونما اور معدنیاتی میٹابولزم خصوصاً کیلشیم اور وٹامن ڈی کو متاثر کرتا ہے، جو ہڈیوں اور دانتوں کی تشکیل کے لیے بنیاد رکھتے ہیں۔
دیگر ہارمونز جیسے ایسٹروڈیول، پروجیسٹرون اور ٹیسٹوسٹیرون کے ساتھ بھی معمولی تعلق پایا گیا، مگر سب سے مضبوط تعلق کارٹیسول کا تھا۔
ڈاکٹر مَینگ کا کہنا ہے کہ کارٹیسول ہڈیوں کی تشکیل کرنے والے اوسٹیوبلاسٹ اور اوسٹیوکلاسٹ خلیوں کی سرگرمی کو بھی متاثر کرتا ہے، جو ہڈیوں کی ساخت بنانے اور انہیں دوبارہ ترتیب دینے کا کام کرتے ہیں۔
عام طور پر بچوں کے دانت چھ ماہ کی عمر میں نکلنا شروع ہوتے ہیں اور تین سال کی عمر تک 20 دودھ کے دانت مکمل ہوجاتے ہیں۔ تاہم جینیات، غذا اور اب تحقیق کے مطابق دورانِ حمل تناؤ بھی اس عمل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر مَینگ کے مطابق ابھی بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب درکار ہیں. جیسے یہ کہ کون سے ہارمونز یا حیاتیاتی عمل دانت نکلنے کے وقت کو تبدیل کرتے ہیں، اور اس تیز رفتار کے بچوں کی مستقبل کی صحت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔










