اہم ترین

غریب لوگوں میں الزائمر اور دماغی امراض کا خطرہ دوگنا ہوتا ہے: تحقیق

نئی امریکی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ غریب طبقہ نہ صرف مالی مشکلات میں مبتلا رہتا ہے بلکہ یہ ڈیمنشیا جیسے دماغی زوال کا زیادہ شکار بھی ہیں ،گویا غربت یہاں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہے۔

امریکن اکیڈمی آف نیورولوجی کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق، کم آمدنی والے اور نسلی لحاظ سے پس ماندہ گروہوں میں الزائمر اور دیگر دماغی بیماریوں کے خطرات کہیں زیادہ پائے گئے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان گروہوں میں موٹاپا، ذیابطیس، بلند فشارِ خون، ڈپریشن، سماجی تنہائی، اور بینائی کی کمی جیسے عوامل عام ہیں یعنی وہ تمام مسائل جو اوسط امریکی اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سوچتا ہے، یہ لوگ جوانی میں ہی جھیل رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خطرات قابو کئے جاسکتے ہیں یعنی اگر توجہ دی جائے تو ان سے بچاؤ ممکن ہے۔ مگر ظاہر ہے، کم آمدنی والوں کے پاس یا تو وقت نہیں ہوتا یا پیسہ۔

تحقیق ڈاکٹر ایرک اسٹول برگ کی سربراہی میں کی گئی، جنہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم اپنی طبی تحقیق صرف خوشحال امریکیوں پر کریں گے تو نتائج غریبوں پر لاگو نہیں ہوسکیں گے۔ڈیمنشیا کے محرکات مختلف طبقوں میں مختلف ہیں جس کے پاس وسائل کم ہیں، اس کے لیے بیماری کے اسباب بھی زیادہ ہیں۔

مطالعے کے مطابق، اعلیٰ آمدنی والے افراد میں تقریباً تمام خطرات کی شرح کم ہے، سوائے موٹاپے اور دماغی چوٹوں کے، جو شاید زیادہ فرصت کے نتیجے میں کھیل کود میں حاصل ہوتی ہیں۔

تحقیق نے یہ بھی بتایا کہ اگر بینائی کی خرابی اور سماجی تنہائی جیسے مسائل پر قابو پالیا جائے تو ڈیمنشیا کے تقریباً 40 فیصد کیسز روکے جا سکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جنہیں نظر کم آتی ہے، ان کے پاس چشمہ خریدنے کی گنجائش نہیں۔

ماہرین نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مطالعہ کسی براہِ راست سبب کو ثابت نہیں کرتا بلکہ تعلق ظاہر کرتا ہے گویا کہ غریب ہونا لازمی طور پر دماغی زوال کی ضمانت نہیں، لیکن خطرہ ضرور بڑھا دیتا ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرِ دماغی امراض ڈاکٹر جورج لیبری گویرا نے کہا کہ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ ڈیمنشیا کی زیادہ ذمہ داری حیاتیات پر نہیں بلکہ معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں پر عائد ہوتی ہے۔

دوسرے الفاظ میں اگر دماغی صحت بچانی ہے تو شاید دماغ سے پہلے پرس کو صحت مند بنانا ہوگا۔

محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈیمنشیا کی روک تھام صرف اسپتالوں میں نہیں بلکہ معاشرتی انصاف سے شروع ہوتی ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو آنے والے برسوں میں ذہنی کمزوری شاید صرف بیماری نہیں بلکہ طبقاتی علامت بن جائے گی۔

پاکستان