مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے تحریک آزادی کا جذبہ بیدار کرنے کا محرک بننے والی 25 کتابوں پر پابندی لگانے کے بعد کتابوں کی دکانوں اور اشاعت خانوں پر کارروائیاں شروع کردی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مودی کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں بکر انعام یافتہ مصنفہ اروندھتی رائے سمیت معروف مصنفین اور دانشوروں کی کتابوں پر پابندی لگائی ہے۔ بھارتی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ کتابیں بھارت کے خلاف علیحدگی پسندی کو ہوا اور ‘نوجوانوں کو گمراہ ‘ رہی ہیں۔
جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں پابندی عائد کی گئی کتابوں میں مشہور ماہرِ آئین اے جی نورانی کی “دی کشمیر ڈسپیوٹ 1947-2012″، سمترہ بوس کی “کشمیر ایٹ دی کراس روڈز”، دیو دت دیو داس کی “ان سرچ آف آ فیوچر”، ارون دھتی رائے کی “آزادی”، انورادھا بھسین کی “اے ڈسمینٹلڈ اسٹیٹ”، طارق علی، پنکج مشرا و دیگر کی “کشمیر: دی کیس فار فریڈم”، کرسٹوفر سنڈن کی “انڈیپینڈنٹ کشمیر” اور امام حسن البنا کی “مجاہد کی اذان” شامل ہیں۔
بھارتی انتظامیہ ناصرف ان کتابوں پر پابندی لگاچکی ہے بلکہ کتاب خانوں اور پبلشنگ اداروں کے خلاف بھی کارروائی کررہی ہے۔
کٹھ پتلی پولیس کے مطابق، دکانداروں کو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے، اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس اقدام پر کشمیری سیاست دانوں اور دانشور حلقوں کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی ہے۔پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کتابوں پر پابندی کو تاریخ کو مٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا’جمہوریت خیالات کے آزادانہ تبادلے سے پھلتی پھولتی ہے۔ کتابوں پر پابندی تاریخ کو مٹا نہیں سکتی، بلکہ تقسیم اور بیگانگی کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ سنسرشپ خیالات کو دباتی نہیں بلکہ ان کی گونج کو بڑھاتی ہے۔‘
نیشنل کانفرنس کے ایڈیشنل جنرل سکریٹری شیخ مصطفیٰ کمال نے اسے غیر سنجیدہ، افسوسناک اور جمہوری قدروں کے منافی قدم قرار دیتے ہوئے کہاکہ’ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کتابوں میں ایسی کیا بات ہے جس سے اتنا خوف محسوس کیا جا رہا ہے۔ اگر واقعی حالات معمول پر ہیں تو سنسرشپ کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے؟‘انہوں نے مزید کہا کہ’تاریخ گواہ ہے کہ کتابوں پر پابندیاں ان کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ جو خیالات دبا دیے جائیں، وہی زیادہ شدت سے عوامی شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘