سوچیے، آپ ایک پوڈکاسٹ سن اور دیکھ رہے ہیں، میزبان کی آواز مانوس لگتی ہے… مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ ایک مشینی ذہانت ہے! ۔۔ جی ہاں اب مصنوعی ذہانت کی بدولت ایسے پوڈکاسٹس بڑی تعداد میں تیار کیے جا رہے ہیں جن میں نہ میزبان انسان ہوتے ہیں، نہ کوئی اسٹوڈیو، اور نہ ہی روایتی ریکارڈنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ صرف ایک کلک پر دلچسپ مکالمہ، معلوماتی مواد اور تمام تفصیلات کے ساتھ پوڈکاسٹ تیار ہو جاتا ہے۔ یہیں سے ایک نیا خطرہ شروع ہوتا ہے اور وہ ہے انسانی عمل دخل کا نہ ہونے کے برابرا ہونا۔
اے ایف پی کے مطابق گوگل کے آڈیو اوورویو جیسے ٹولز کے آغاز کے بعد الیون لیبس اور ونڈر کرافٹ جیسی کئی نئی کمپنیاں اس دوڑ میں شامل ہو گئی ہیں۔ ان ٹولز کی مدد سے قانونی دستاویزات، اسکول کے نوٹس یا دیگر مواد سے براہِ راست پوڈکاسٹ تیار کیے جا سکتے ہیں۔
دو برس قبل 2023 میں قائم ہونے والی کمپنی انسیپشن پوائنٹ اے آئی اس شعبے کی ایک نمایاں مثال ہے جو صرف 8 افراد کی ٹیم کے ساتھ ہر ہفتے تقریباً 3 ہزار پوڈکاسٹس جاری کرتی ہے۔
کمپنی کی بانی جینین رائٹ کے مطابق ہر پوڈکاسٹ پر صرف ایک ڈالر لاگت(پاکستانی کرنسی میں 282 روپے) آتی ہے اور یہ رقم 20 ویوز سے ہی حاصل ہوجاتی ہے۔
جینین رائٹ کہتی ہیں کہ اے آئی کے ذریعے طبی موضوعات پر بھی پوڈکاسٹ بنائے جا سکتے ہیں، جس میں کچھ درجن لوگوں کی ہی دلچسپی ہوگی لیکن دوا ساز کمپنیاں اشتہار دینے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
اے آئی سے تیار کردہ مواد کی بھرمار کو اے آئی سلوپ کہا جاتا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اے آئی سلوپ انفرادی پوڈکاسٹ بنانے والوں کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس کے پروفیسر مارٹن اسپینیلی کے مطابق، یہ سیلاب انفرادی تخلیق کاروں کے لیے نمایاں ہونا مزید مشکل بنا دے گا۔
جبکہ پوڈکاسٹر نیٹ ڈیمیئو کا کہنا ہے کہ اگرچہ سامعین کی ترجیحات فوری طور پر نہیں بدلیں گی، لیکن اے آئی پوڈکاسٹس کی بھرمار تخلیقی معیار پر ضرور اثر ڈالے گی۔
جینین رائٹ کے مطابق ہر اے آئی مواد کو کمتر سمجھنا مناسب نہیں، کیونکہ اس سے بہت سا دلچسپ اور معیاری مواد بھی بن رہا ہے۔ مستقبل میں اے آئی سے لائیو ایکشن اور اینی میشن فلمیں بھی بنیں گی۔