اہم ترین

ٹرمپ کے اسرائیلی پارلیمنٹ خطاب کے دوران احتجاج، فلسطین کے حق میں نعرے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ سے اپنے تاریخی خطاب کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں امن، سلامتی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کی، تاہم اس اہم خطاب کے دوران ماحول اُس وقت کشیدہ ہوگیا جب حزبِ مخالف کے کئی ارکان نے ان کی پالیسیوں کے خلاف زوردار احتجاج شروع کر دیا۔

خطاب کے دوران کچھ ارکان نے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم اور احتجاجی بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر “فلسطینیوں کے حقوق بحال کرو” اور “امن نہیں، انصاف چاہیے” جیسے نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو یکطرفہ اور متعصبانہ قرار دیتے ہوئے ان پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کے حق میں جھکاؤ رکھتے ہیں اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

سیکیورٹی اہلکار فوری طور پر حرکت میں آئے اور احتجاج کرنے والے ارکان کو ایوان سے باہر نکال دیا، جس کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنا خطاب جاری رکھا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہے، مگر امن صرف طاقت کے توازن سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ باہمی احترام اور اعتماد سے پیدا ہوتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران ایوان کے باہر بھی متعدد شہری مظاہرے ہوئے جن میں انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبہ اور سماجی کارکنوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے خطاب کے دوران ہونے والا یہ احتجاج اسرائیل کے اندر بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں پر تنقید کا مظہر ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ سے متعلق فیصلے، خاص طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان، اب بھی تنازعات کو ہوا دے رہا ہے۔

دوسری جانب، وائٹ ہاؤس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ احتجاج جمہوری آزادی کا حصہ ہے اور صدر ٹرمپ کے الفاظ کا مقصد پائیدار امن کے لیے بات چیت کا دروازہ کھولنا ہے۔

پاکستان