اہم ترین

ماں زیتون: پانچ ہزار سال پرانا درخت ، فلسطینی مزاحمت کی زندہ علامت

اسرائیل کے زیر تسلط مقبوضہ مغربی کنارے کے گاؤں الولجہ میں ایک قدیم زیتون کا درخت تاریخ، تہذیب اور استقامت کی علامت بن چکا ہے، یہآج بھی اپنی جڑوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس درخت کی نگرانی 52 سالہ صلاح ابو علی کرتے ہیں، جو نہ صرف اس کی شاخیں تراشتے اور پھل جمع کرتے ہیں بلکہ اسے اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ درخت تین ہزار سے ساڑھے پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ یعنی اس نے ہزاروں سال کے قحط، جنگوں اور قبضوں کے ادوار دیکھے ہیں۔ ابو علی کے مطابق یہ کوئی عام درخت نہیں، یہ تاریخ ہے، تہذیب ہے، ایک علامت ہے۔

درخت کے گرد ابو علی نے ایک چھوٹی سی نخلستان نما جگہ بنا رکھی ہے، مگر چند ہی قدم دور اسرائیلی دیوارِ فاصل اپنی پانچ میٹر اونچی دیوار اور خاردار تاروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ الولجہ کی آدھی سے زیادہ زمین اسی دیوار کے دوسری طرف چلی گئی ہے۔

اگرچہ اس گاؤں کو اب تک ان حملوں سے کچھ حد تک تحفظ ملا ہے جنہوں نے مغربی کنارے کے دیگر علاقوں میں زیتون کی فصل کو تباہ کیا، مگر صورت حال اب بھی نازک ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں کسانوں پر 2350 حملے کیے گئے، جن میں اکثر اسرائیلی آبادکار ملوث تھے ۔ اور ان میں سے بیشتر کو کسی قسم کی سزا نہیں ملی۔

الولجہ کے میئر خضر العراج کے مطابقیہ درخت فلسطینی قوم کی طرح ہے ، ہزاروں سال سے اس زمین میں جڑا ہوا، اور ہر طوفان کے باوجود زندہ ہے۔

درخت کو “الشیخہ”، “ماں زیتون” اور “بیابان کی ماں” جیسے القابات دیے گئے ہیں۔ فلسطینی وزارتِ زراعت نے اسے قدرتی ورثہ قرار دیا ہے اور ابو علی کو اس کا سرکاری نگران مقرر کیا ہے۔

درخت کی چوڑائی تقریباً دو میٹر اور اونچائی عام زیتون کے درختوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اچھے موسم میں یہ درخت 500 سے 600 کلو زیتون دیتا ہے، اور اس کا تیل “سبز سونا” کہلاتا ہے — جوعام تیل سے پانچ گنا زیادہ قیمتیہے۔

ابو علی کے بقول میں اس درخت کا حصہ بن چکا ہوں، اب اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں۔

یہ قدیم زیتون کا درخت، جو صدیوں سے فلسطین کی مٹی میں جڑا ہے، آج بھی قبضے، دیواروں اور جنگوں کے باوجود جڑوں سے وابستہ رہنے کا ایک پیغام دیتا ہے۔

پاکستان