اہم ترین

بوسہ لینے کا عمل 2 کروڑ سال سے بھی پرانا! نئی تحقیق کا حیران کن انکشاف

ایک نئی ماڈلنگ اسٹڈی کے مطابق بوسہ لینے کا عمل جدید انسانوں کی پیدائش سے بھی لاکھوں سال پہلے وجود میں آ چکا تھا۔

سائنسی جریدے ایولوشن اینڈ ہیومن بی ہیوئیر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بوسہ لینے کی روایت تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ سال پہلے اُس مشترکہ جدِ امجد میں موجود تھی، جس سے انسان اور بڑے بندر وجود میں آئے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ دورحاضر کے انسانوں کی نسل ہومو سیپینز تقریباً 3 لاکھ سال پہلے وجود میں آئی تھی۔

تحقیق میں یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جدید انسانوں کے سب سے قریبی معدوم رشتہ دار نیاندرتھلز بھی بوسہ لیتے تھے، اور نیاندرتھلز اور جدید انسانوں کے درمیان بھی ممکنہ طور پر بوسہ لیا جاتا رہا۔

مطالعے کی مرکزی مصنفہ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ارتقائی ماہر حیاتیات میٹیلڈا برنڈل کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی نے بوسہ لینے کے عمل کو وسیع ارتقائی زاویے سے جانچنے کی کوشش کی ہے۔

میٹیلڈا برنڈل کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق اس بڑھتے ہوئے شواہد میں اضافہ کرتی ہے جو ہمارے قریبی رشتہ داروں میں جنسی رویّوں کی حیرت انگیز تنوع کو ظاہر کرتے ہیں۔

سائنس دانوں نے سب سے پہلے یہ طے کیا کہ بوسہ کس عمل کو کہا جا سکتا ہے، کیونکہ فطرت میں بہت سے منہ سے منہ والے رویّے بوسے سے ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً انسانوں جیسے بندروں میں ماں اپنے بچوں کو چبایا ہوا کھانا منہ سے منہ دیتی ہے۔ کچھ مچھلیاں کِس فائٹنگ کے ذریعے ایک دوسرے پر غلبہ جتاتی ہیں۔

محققین نے بوسے کی تعریف یوں کی غیر جارحانہ منہ سے منہ کا رابطہ جس میں کھانا منتقل نہ ہو۔

اس تعریف کی بنیاد پر جدید انسانوں کی نسل کے قریبی رشتے داروں بونوبوز، گوریلوں، چمپینزیوں، اورنگوٹانز، مکاکس اور بابونمیں بوسہ لینے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

ماہرین نے بیئزین ماڈلنگ نامی طریقہ استعمال کرتے ہوئے بوسہ لینے کی ارتقائی تاریخ کو دوبارہ ترتیب دیا۔ اس میں بوسہ لینے کو ایک جسمانی اور رویّائی خاصیت کے طور پر لیا گیا اور یہ جانچا گیا کہ مختلف ارتقائی شاخوں میں یہ رویّہ کس حد تک موجود تھا۔

نتائج نے اس امکان کو بہت زیادہ مضبوطی سے پیش کیا کہ ہمارے قدیم ترین بندر نما آباؤ اجداد بھی بوسہ لیتے تھے۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بوسہ لینے کا عمل بڑے بندروں کے اُس مشترکہ جدِ امجد میں صرف ایک بار ارتقا پذیر ہوا تھا۔ یہ دور تقریباً 2 کروڑ 15 لاکھ سے 1 کروڑ 69 لاکھ سال پہلے کا ہے۔

تحقیق کے مطابق مکاکینا اور پیپیونینا (جِن میں مکاک بندر اور بابون شامل ہیں) کے آباؤ اجداد میں بوسہ لینے کا عمل موجود نہیں تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ آج کے دور میں ان گروہوں کے جن جانوروں میں بوسہ لینے جیسا رویّہ دیکھا جاتا ہے، وہ الگ سے اور خود بخود ارتقا پذیر ہوا۔

محققین نے یہ نتیجہ جدید انواع کے مشاہدات سے ماضی کی طرف پیچھے جا کر اخذ کیا، یعنی موجودہ پرائمیٹس کے رویّوں کو اُن کے قدیم آباؤ اجداد تک ریورس ماڈلنگ کے ذریعے جانچا گیا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ مزید شواہد کی ضرورت ہے، مگر ایک نظریہ یہ ہے کہ بوسہ لینے کی بنیاد ماں کے بچے کو چبایا ہوا کھانا منہ سے منہ منتقل کرنے کے عمل سے پڑی۔ یعنی ابتدا میں یہ عمل صرف غذا دینے کا عملی طریقہ تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ رویّہ جسمانی قربت اور سماجی تعلق کا ذریعہ بنتا گیا۔ بالآخر یہی عمل وہ شکل اختیار کر گیا جسے آج ہم بوسہ کہتے ہیں۔

پاکستان