اہم ترین

سوڈان کے فوجی سربراہ نےجنگ بندی کی امریکی تجویز مسترد کر دی

اپریل 2023 سے مسلسل خانہ جنگی کا شکار سوڈان میں امن کی کوششوں کو ایک بار پھر دھچکا لگا ہے، جہاں فوج اور طاقتور نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے مابین کشیدگی کم ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ملک گزشتہ دو برس سے شدید تباہی اور انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق اس جنگ میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ امدادی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ جنگ نے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک جنم دیا ہے، جس میں ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، وبائی امراض پھیل رہے ہیں اور ملک کے کئی علاقے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔

امریکا، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ‘کواڈ’ کے نام سے معروف بین الاقوامی ثالثی گروپ لڑائی روکنے اور ملک کو دوبارہ جمہوری عمل کی طرف لانے کی کوششیں کر رہا ہے، تاہم سوڈانی قیادت میں اختلافات کے باعث پیش رفت نہیں ہو سکی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ سوڈان کی جنگ کے خاتمے پر خصوصی توجہ دیں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ امریکا اس بحران کے حل میں فعال کردار ادا کرے۔

امریکی مشیر برائے افریقی امور مسعد بولوس کا کہنا ہے کہ تازہ ترین امن تجویز میں تین ماہ کی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور اس کے بعد نو ماہ کے سیاسی عمل کی پیشکش کی گئی ہے۔ دارفور کے علاقے الفاشر میں مبینہ قتلِ عام کے بعد آر ایس ایف نے جنگ بندی پر آمادگی بھی ظاہر کر دی تھی۔

تاہم سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان نے اس تجویز کو انتہائی ناقص قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اب تک کی بدترین دستاویز ہے، جس میں مسلح افواج کو کمزور جبکہ ملیشیا کو برقرار رکھا گیا ہے۔ انہوں نے ثالثی گروپ کو تنبیہ کی کہ اگر مذاکرات اسی سمت چلتے رہے تو فوج اسے جانبدار مداخلت تصور کرے گی۔

سوڈان میں جاری جنگ بندی کی کوششیں اگر ایک بار پھر ناکام ہوئیں تو ماہرین کے مطابق ملک مزید تباہی کی طرف جا سکتا ہے، جبکہ لاکھوں افراد پہلے ہی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

پاکستان