اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ کمیٹی نے موجودہ معاشی حالات اور مہنگائی کے تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال ہماری مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد رہی جو کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک کے مقرر کردہ ہدف سے معمولی کم تھی۔گزشتہ سال کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں بڑی کمی آئی، اس کے ساتھ ساتھ بنیادی مہنگائی کی مجموعی شرح میں بھی آہستہ آہستہ کمی آئی، گزشتہ ماہ جون میں مہنگائی کی بنیادی شرح 7.5 فیصد پر آگئی، اسی طرح پچھلے ماہ جون میں مجموعی مہنگائی کی شرح 3.2 فیصد تھی۔
گورنر اسٹیت بینک نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے بیرونی کھاتوں کا خاص طور پر جائزہ لیا، گزشتہ مالی سال درآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، مالی سال 24-2023 میں 53 ارب ڈالر کی درآمدات تھیں، جو گزشتہ مالی سال یعنی 25-2024 میں 11.1 فیصد اضافے سے 59.1 ارب ڈالر ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ خام تیل کے علاوہ درآمدات میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے تو تیل کے شعبے کے علاوہ دیگر شعبوں کی درآمدات بھی بڑھی ہیں۔
جمیل احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال برآمدات 4 فیصد سے تھوڑی اوپر بڑھی ہیںلیکن ترسیلات زر میں بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے جو کہ 38.3 ارب ڈالر رہیں، جب کہ اس سے پچھلے سال تقریباً 30 ارب ڈالر تھیں اور ان میں تقریباً 8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال ہم نے قرضوں کی تمام ادائیگیاں بروقت کیں اس کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پچھلے سال کے 9.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر اس 14.5 ارب ڈالر کے ہوگئے تھے اور اس میں ایک سال کے دوران تقریباً 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔