اہم ترین

شرح سود میں کمی نہ ہونے پر تجارتی و صنعتی حلقے شدید مایوس

صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان کے کاروباری، صنعتی اور تجارتی حلقے حکومتی مالیاتی پالیسی سے شدید مایوس ہیں

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو برقرار رکھا ہے۔ جس پر صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے نشاندہی کی کہ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جون 2025 میں افراط زر کی شرح 3.20 فیصد رہی لیکن موجودہ پالیسی ریٹ اب بھی 11.0 فیصد پر برقرار ہے۔ جوکہ افراط زر کے مقابلے میں 780 بیسز پوائنٹس کا فرق ظاہر کرتا ہے اور یہ عمل کسی بھی معاشی منطق کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی نے تمام صنعتی و تجارتی شعبوں سے مشاورت کے بعد بدھ کو ہونے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ میں ایک ساتھ 500 بیسز پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ، پالیسی ریٹ کو عملی ومعاشی طور پرقابل قبول بنیادوں پر لایا جا سکے اور اسے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل اور وزیرِاعظم کے صنعتی ترقی، درآمدی متبادل اور برآمدی فروغ کے وژن کے مطابق بنایا جا سکے۔

یونائٹڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر نے کہا کہ جولائی تا اگست 2025 کے دوران افراط زر کی شرح 3 سے 4 فیصد رہنے کی توقع ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پالیسی ریٹ کو فوری طور پر 6 فیصد تک لایا جانا چاہیے۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ عبدالمہیمن خان نے تجویز دی ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ کیا جائے؛ تاکہ، پاکستانی برآمد کنندگان خطے اور عالمی منڈیوں میں مسابقت کے قابل ہو سکیں اور کاروباری سرمائے کی فراہمی لاگت میں مؤثر کمی ممکن ہو سکے۔

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ نے ایک بار پھر فیڈریشن کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت، سہولت اور مالی وسائل تک رسائی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم سطح پر ہے۔

پاکستان