اہم ترین

گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون کو پاور شاک! اے آئی چلانے کے لیے بجلی نہیں

مصنوعی ذہانت کی عالمی دوڑ میں امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس سرمایہ بھی ہے اور جدید چپس بھی، لیکن اب ان کے راستے میں ایک نیا بحران اُبھر آیا ہے اور وہ ہے بجلی کی کمی۔

مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیہ نڈیلا نے حال ہی میں اوپن اے آئی کے چیف سیم آلٹمین کے ساتھ ایک پوڈکاسٹ میں اعتراف کیا کہ اب سب سے بڑا مسئلہ کمپیوٹنگ پاور نہیں، بلکہ بجلی کی دستیابی اور نئے ڈیٹا سینٹرز کو جلد مکمل کرنے کی صلاحیت ہے۔اگر بجلی نہ ملی تو ہمارے پاس چپس تو ہوں گی، مگر ہم انہیں چلانے کے قابل نہیں ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق یہ صورتحال 1990 کی دہائی کے ڈاٹ کام ببل سے مشابہ ہے، جب انٹرنیٹ انفراسٹرکچر میں اندھا دھند سرمایہ کاری کی جا رہی تھی۔

مورگن اسٹینلی کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو 2028 تک 45 گیگاواٹ بجلی کی کمی واقع ہو سکتی ہے جو 3 کروڑ 30 لاکھ امریکی گھروں کی بجلی کے برابر ہے۔

بجلی کے اس ممکنہ بحران کے باعث کئی امریکی ریاستوں میں کوئلے کے پلانٹس بند کرنے کے فیصلے مؤخر کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ قدرتی گیس سے چلنے والے پلانٹس کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ انہیں کم وقت میں نصب کیا جا سکتا ہے۔

ریاست جارجیا میں ایک یوٹیلٹی کمپنی نے 10 گیگاواٹ گیس ٹربائنز لگانے کی منظوری مانگی ہے۔ بعض کمپنیاں حتیٰ کہ پرانے ہوائی جہازوں کے انجن دوبارہ استعمال کر کے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔

امریکی وزیر داخلہ ڈگ برگم نے خبردار کیا ہے کہ اس وقت اصل خطرہ موسمیاتی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس کافی بجلی نہ ہوئی تو ہم اے آئی کی دوڑ ہار جائیں گے۔

بجلی کی قلت کے باوجود بڑی کمپنیاں اپنے “کاربن فری” وعدوں کو خاموشی سے پسِ پشت ڈال رہی ہیں۔ گوگل نے 2030 تک نیٹ زیرو اخراج کا وعدہ اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے۔

اب کمپنیاں ایٹمی توانائی، شمسی بجلی اور بیٹری اسٹوریج پر انحصار بڑھا رہی ہیں۔ ایمیزون چھوٹے ایٹمی ری ایکٹرز پر کام کر رہی ہے، جبکہ گوگل 2029 میں آئیووا میں ایک پرانا ری ایکٹر دوبارہ شروع کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

ٹیکساس میں بجلی کے نظام میں 2030 تک 100 گیگاواٹ اضافی شمسی و بیٹری پاور شامل کرنے کے منصوبے پر کام ہورہا ہے۔

ایلون مسک اور گوگل نے خلا میں شمسی توانائی سے چلنے والے چِپس سیٹیلائٹس بھیجنے کے منصوبے پیش کیے ہیں، گوگل کے مطابق ان کا تجربہ 2027 میں ہوگا۔

گوگل، مائیکروسافٹ، ایمیزون اور میٹا رواں برس مجموعی طور پر 400 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ لگانے جا رہے ہیں تاکہ وہ نِوِڈیا جیسے چپ لیڈرز کا مقابلہ کر سکیں۔

تاہم ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان کا سامنا اب “توانائی کی دیوار” سے ہے — کیونکہ ڈیٹا سینٹر بنانے میں دو سال لگتے ہیں، جبکہ نئی ہائی وولٹیج پاور لائنز لانے میں پانچ سے دس سال کا عرصہ لگتا ہے۔

ورجینیا میں موجود ڈومینین انرجی کے پاس صرف ڈیٹا سینٹرز کے لیے 47 گیگاواٹ کی طلب ہے جو 40 ایٹمی ری ایکٹرز کے برابر ہے۔

پاکستان